Monday 6 April 2020

Pakistani Media Role in Current Pandemic Pakistani Media Properties and Slap by Government


Pakistani Media Role in Current Pandemic Pakistani Media Properties and Slap by Government 

Pakistani Media Role in Current Pandemic Pakistani Media Properties and Slap by Government
Pakistani Media Role in Current Pandemic Pakistani Media Properties and Slap by Government 

عمران خان کے ہاتھوں میڈیا کی چھترول 

پاکستانی قوم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ خود کو بہت ذہین, فطین اور عقل مند سمجھتی ہے. دنیا کا کوئی شعبہ ہو. چاہے وہ کرکٹ ہو, انٹرنیشنل سیاست ہو, پاکستانی سیاست ہو, شعبہ طب ہو, یا کورونا وائرس ہو  یہ اس پہ اپنی رائے دینے میں کوئی ثانی نہیں رکھتی. 
یہی حال اس وقت ہمارے میڈیا اور میڈیا اینکرز کا ہے. جب بھی کوئی ٹی وی چینل آن کرو. ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے. کرونا پہ بحث چل رہی ہوتی ہے اور اس میں بجائے ڈاکٹرز کے نام نہاد تجزیہ کار, ٹی وی اینکرز یا کچھ بے وقوف سیاستدان کرونا وائرس پہ معلومات دے رہے ہوتے ہیں. کوئی بتا رہا ہوتا ہے کہ کرونا وائرس کی علامات کیا ہیں. کوئی علاج بتا رہا ہوتا ہے کوئی حکومت کی نااہلی پہ بات کر رہا ہوتا ہے کہ یہ کیوں پھیلا. یہ سب دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہم ایک جاہل قوم ہیں.
 فضول قسم کے بے وقوف لوگوں کو ٹی وی پہ بلا کے اس آسمانی قدرتی آفت پہ رائے لی جاتی ہے بجائے اسکے کہ ملک کے مایہ ناز ڈاکٹرز کو بلا کے ان سے رائے لی جائے. قوم کو ایک شعور دیا جائے. قوم کو اس بلا کی تباہ کاریوں سے بچنے کی ترغیب دی جائے اور قوم کو ایک صحیح راستے پہ چلنے کی ترغیب دی جائے. لیکن بجائے یہ سب کرنے کے الٹا قوم کو ایک کنفیوژن میں دھکیلا جا رہا ہے تاکہ ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کر کے ریٹنگ بڑھائی جائے. ایک مقولہ ہے کہ  """""  ڈر پیدا کرو گے تو مال بکے گا """""
میرا سوال ہے کہ ایک میٹرک پاس سیاستدان وائرس پہ بریفنگ کیسے دے گا ؟
ایک جرنلسٹ وائرل اٹیک کی تباہ کاریوں سے بچنے کا کونسا طریقہ بتائے گا ؟
ایک تجزیہ کار جو صرف ٹی وی پہ بیٹھ کے لوگوں کی پگڑیاں اچھالتا ہے. وہ کورونا وائرس کا علاج کیسے بتائے گا ؟
بات وہیں پہ آ جاتی ہے کہ جب تک ڈر رہے گا. مال بکے گا. 
پاکستان میں میڈیا ایک بے لگام مافیا ہے. جس کو آج تک کوئی نکیل نہیں ڈال سکا. مجھے جنرل پرویز مشرف کی بات بہت یاد آتی ہے. اس سے سوال پوچھا گیا کہ آپ نے اپنے دور حکومت میں سب سے بڑی غلطی کیا کی ؟
تو اس نے ایک تاریخی جملہ بولا
"""میڈیا کو آزادی دینا میری بہت بڑی غلطی تھی کیونکہ میری قوم ابھی میچور نہیں تھی """"
اور آج وزیراعظم عمران خان کی میڈیا بریفنگ کے دوران مجھے مشرف صاحب کی یہ بات حرف بحرف درست ثابت ہوئی. آزاد بے لگام میڈیا بدتمیزی کی حد تک جا رہا تھا لیکن آپ کا پرائم منسٹر آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ ہے. اس نے نہ صرف تحمل سے تمام سوالوں کے جواب دیئے بلکہ بلکہ پوری قوم جو ایک مایوسی کی کیفیت میں تھی.اسے کچھ سکھ کا سانس لینا نصیب ہوا اور اسکے  ساتھ ساتھ پرائم منسٹر نے سب میڈیا اینکرز کو تمیز بھی سکھائی. 

لیہ سے تعلق رکھنے ایک بکاؤ صحافی جس کا پورا خاندان آج بھی لوگوں کی گندم کاٹ کے محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے (جبکہ محنت میں عظمت ہے  اس میں کوئی برائی نہیں). رؤف کلاسرہ نامی شخص جب اقتدار کے اونچے ایوانوں میں بیٹھنے والوں میں بیٹھنے لگا تو اپنی اوقات بھول گیا. یہ ہم سب سرائیکیوں کا مسئلہ ہے کہ ہم کسی کی عزت برداشت نہیں کر سکتے. اندر سے جلتے کڑھتے رہتے ہیں. بددعائیں کرتے رہتے ہیں کہ یا اللہ اس سے سب کچھ چھین لے. یہ ہمارا نفسیاتی پرابلم ہے. اور آج پریس کانفرنس میں یہی نفسیاتی مسئلہ کھل کے سامنے آیا. میڈیا ٹاک کورونا وائرس پہ تھی لیکن رؤف کلاسرہ نے میڈیا کے مسائل اور میر شکیل کی گرفتاری کا کیس پیش کرتے ہوئے بدتمیزی کی حد الفاظ استعمال کئے. اور عمران خان کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ آپ بلکل ناکام ہیں. آپ خود سوچئے... کہ جو شخص ایک گھنٹے کے پروگرام کیلئے ٹی وی مالکان کے تلوے چاٹتا ہے وہ وزیر اعظم کو کہ رہا ہے کہ 
آپ کی میڈیا سے لڑائی ہے... 
آپ کی سیاستدانوں سے لڑائی ہے 
آپ کی پورے ملک سے لڑائی ہے
آپ کی کوئی کارکردگی نہیں 
آپ کورونا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں... 
لیکن سلام ہے مرد بحران کو کہ اس نے تمام باتیں تحمل سے سنیں اور بڑے مہذب انداز میں اتنا کہا  کہ کلاسرہ صاحب میڈیا بہت آزاد ہے. یہی باتیں جو آپ میڈیا پہ کرتے ہیں. اگر آپ یورپ کے کسی ملک میں کریں تو آپ کے ٹی وی چینل بند ہو جائیں. آپ قابل احترام ہیں. لیکن آج ہم یہاں صرف کورونا پہ بات کرنے آئے ہیں اور آپ میر شکیل کا رونا لیکے بیٹھ گئے. پوری قوم اس وقت کورونا کے متعلق جاننا چاہتی ہے کہ اسکا انجام کیا ہو گا؟ اس کے بعد اس اجڈ دیہاتی آدمی کا منہ لٹک گیا اور عمران خان نے بڑے مدلل انداز میں کورونا کے پھیلاؤ پہ بریفنگ دی. 

یہ بات شاید ہمارے ملک کے مشہور بھانڈ خاندان سے تعلق رکھنے والے خاندان سے پیدا ہونے والی ایک خود ساختہ صحافی ارشاد بھٹی  ( بھانڈ جسے ہم مسلی کہتے ہیں جو گاؤں میں شادی بیاہ کی تقریبات میں برات یا ولیمہ کے وقت اپنی انٹری ڈالتے ہیں اور لوگوں کو چند لطائف سنا کر اپنی ویل وصول کر کے... بھاگ لگے رہن.... کی صدائیں دیتے رخصت ہو جاتے ہیں)  ...کو بھی بری لگی تو اس نے رؤف کلاسرہ کی بے عزتی کا بدلہ لینے کی کوشش کی. اس نے اسی طرح بھانڈ گیرانہ انداز میں اپنی بات شروع کی تو وزیر اعظم نے فورن ٹوک دیا کہ بھٹی صاحب آج بات صرف کورونا وائرس پہ ہو گی تو اس کا منہ بھی لٹک گیا اور اس سے کوئی ویلڈ سوال بن ہی نہیں پایا. 
اس کے بعد عبد المالک کی باری آئی تو اس نے آتے بدتمیزی اور توہین کی انتہا کر دی. چھوٹتے ہی سوال کیا کہ وزیراعظم صاحب میں سوال آپ سے کروں گا کیونکہ آپکے ارد گرد الیکٹڈ لوگ بیٹھے ہیں. جبکہ وہاں چیرمین این ڈی ایم ے,چیرمیں انفیکشن کرائسز جو دن رات اس انفیکشن سے مقابلہ کر رہے ہیں,وہ سب وہاں موجود تھے .اسکی یہ بات انتہائی بھونڈی اور غیر ذمہ دارانہ تھی. اگر میں وزیراعظم کی جگہ ہوتا تو اسے فورن اٹھا کے باہر پھینکوا دیتا لیکن سلام ہے ہمارے پرائم منسٹر کو. انہوں نے بڑے تحمل سے جواب دیا کہ مالک صاحب کبھی امریکہ کے صدر کے ارد گرد لوگوں کو دیکھئے گا کہ اس کے ساتھ کون لوگ ہوتے ہیں. کیا وہ تھنک ٹینک کے لوگ نہیں ہوتے. پوری دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ لوگ انکی ایکسپرٹیز کے مطابق ان سے کام لیتے ہیں... تب انکا منہ لٹکا لیکن پھر بھی باز نہیں آئے. اس نے وزیر اعظم اور پوری ٹیم کی بھر پور توہین کرنے کی کوشش کی بلکہ یہاں تک کہ دیا کہ کل کو اگر کورونا پھیل گیا تو میں آپکا گریبان پکڑوں گا. لیکن عمران خان نے تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اسکی تسلی کرائی. ان موصوف کے بارے میں عرض کرتا چلوں کہ چند سال پہلے یہ موصوف ایک پرانی سی بائیک پہ اخبار بیچا کرتے تھے لیکن اچانک مبشر لقمان کی طرح امیر ہو گئے اور آج کل مرسیسیڈیز بینز میں گھومتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ہماری سابقہ حکومتیں اداروں کو اتنا کمزور کر چکی ہیں کہ ان جیسے بھیڑیے کھلے عام ہم جیسی غریب بھیڑوں کا گوشت کھا کے اپنا پیٹ بھرتے ہیں اور کوئی انکا کچھ نہیں بگاڑ پا رہا.... یہ معاشرے کے وہ ناسور ہیں جو کہ RAW سے زیادہ اس ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں. عوام میں فرسٹریشن پھیلا رہے ہیں. ان ناسوروں کی وجہ سے قوم اپنی کوئی سمت متعین نہیں کر پا رہی .حیران ہوں کہ یہ گھر میں اپنے بیوی بچوں کا سامنا کیسے کرتے ہوں گے. پورا ملک انکو گالیاں دیتا ہے لیکن انکی ڈھٹائی کی انتہا ہے کہ یہ ہر شام کو نیا سوٹ ٹائی لگا کے قوم کو ایک نیا راستہ دینے کی کوشش کرتے ہیں. قوم کو چاہیئے ان کالے بھیڑیوں کا مکمل بائیکاٹ کرے.... یہ معاشرے کا ایک بدنما داغ ہیں. یہ اگر کسی یورپ یا امریکہ جیسے کسی ملک میں ہوتے تو کسی ہوٹل میں برتن مانجھ رہے ہوتے... 
اب پریس کانفرنس پہ آتے ہیں. کل کی ہونے والی پریس ٹاک امید سے بھر پور تھی جس نے پوری قوم کو ایک ہیجان سے نکالا. چیرمین این ڈی ایم اے کی کوششیں ڈسکس کی گئیں. ان کے اس آفت سے نمٹنے کی تیاری پہ ڈسکس کی گئی. ڈاکٹر ظفر مرزا کی کاوشں قابل تعریف تھی. عمران خان کا اپنی قوم کیلئے واضع پیغام تھا کہ آپ اپنے گھروں میں سکوں سے رہیئے .ہم آپکی حفاظت کیلئے موجود ہیں. کل پہلی بار مایوسی ایک امید میں بدل گئی. نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن عمران خان نے ثابت کیا کہ دکھ کی اس گھڑی میں وہ اس سسکتی بلکتی قوم کے ساتھ کندھے سے کندھے ملائے کھڑا ہے... یقین ہو گیا کہ اللہ کے بعد ہمارا مالک پرائم منسٹر ہے اور وہ ہماری پوری طرح حفاظت کرنے کی طاقت رکھتا ہے... اپوزیشن کا حال تو آپ نے دیکھ لیا کہ شہباز شریف نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر میر شکیل الرحمان کو رہا کر دیا جائے تو کورونا وائرس پہ قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے. آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ میر شکیل پہ توہین رسالت کی ہزاروں ایف آئی آرز ہیں جو کہ ن لیگ کے دور رجسٹر ہیں جو کہ ن لیگ کے دور میں رجسٹرڈ ہوئیں. جبکہ آج وہی ن لیگ کورونا وائرس پہ قابو پانے کیلئے میر شکیل کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے... کتنی سٹوپڈ بات ہے کہ کیا میر شکیل کوئی اینٹی وائرس ہےکہ جس کے کھانسنے سے کورونا وائرس دم توڑ دے گا. ایک ہونق اور پاگل انسان جسے ہم نے 35سال حکومت دی. وہ اگر ایسی بات کرے گا تو رونا تو آئے گا اپنی بے وقوفی اور قسمت پہ کہ ہم کس کس طرح کے بے وقوف انسانوں کو اپنا نجات دہندہ مانتے رہے  
آخر میں میں وزیراعظم کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ پوری قوم اور اسکے جوان مصیبت کی اس گھڑی میں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں. آپ ہمارے لئے قدرت کا ایک انمول تحفہ ہیں. دکھ کے اس موقع پہ ہم آپ کے شانہ شانہ کام کریں گے. اس قوم کے ہر جوان آپکی ایک کال پہ لبیک کہیں گا. جس طرح آپ اس قوم کی حفاظت کر رہے ہیں. ہم آپکی حفاظت کریں گے. آپ کو جہاں بھی ضرورت ہے ہم حاضر ہیں. موت تو آنی ہی ہے وہ کورونا وائرس سے آئے یا گھر بیٹھے آئے.... وہ تو آنی ہی ہے.. ہم آپکی کال پہ گھر پہ دبک کے نہیں بیٹھیں گے... اگر کورونا پھیلتا ہے تو ہم آپ کے ساتھ ہیں. ہم میڈیکل ایکسپرٹس تو نہیں ہیں لیکن کم از کم ہسپتالوں میں کوئی چھوٹا موٹا کام تو کر سکتے ہیں.. ہسپتالوں کی صفائی تو کر سکتے ہیں.. مریض کی کروٹ تو بدل سکتے ہیں. ہم آپ کے ساتھ اس طرح مل کے کام کریں گے.. جس طرح چائنہ کہ عام عوام نے ڈاکٹرز کے ساتھ مل کے کیا.. یہ صرف ڈاکٹرز کا مسئلہ نہیں... پوری قوم کا مسئلہ ہے اور اس وقت پوری قوم آپ کے اور ڈاکٹرز کے ساتھ ہے... 
سب سے پہلے میں اپنی تمام خدمات آپ کیلئے, کورونا وائرس کیلئے وقف کرتا ہوں. مجھے اگر ہسپتال کے واش رومز بھی صاف کرنے پڑے تو میں انشا اللہ دکھ کی اس گھڑی میں کروں گا. اگر میری وجہ سے کسی ایک انسان کی بھی جان بچ گئی تو گویا میں نے پوری انسانیت کی جان بچالی 
اللہ آپکو اس مصیبت سے نکلنے کی طاقت عطا فرمائے...

No comments:

Post a Comment